تحریر: محمد بشیر دولتی
حوزہ نیوز ایجنسی | بچے تو معصوم اور بے گناہ ہوتے ہیں۔ اپنے ہو یا پرائے بچے، من کے سچے، پیارے اور حساس بھی ہوتے ہیں۔ حساس ہی نہیں بلکہ والدین کی ترجیحات کا محور یہی بچے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ہرچاہت، ہرخواہش کو اپنے والدین سے طلب کرتے ہیں۔ بیٹیاں تو بیٹوں سے ذیادہ حساس ہوتی ہیں۔وہپھولوں کے کلیوں، تتلیوں کے نرم و نازک پروں سے بھی زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ وہ گھر نامی گلستان میں گلاب کے معطر خوشبو جیسی ہے۔ وہ معمولی چوٹ پہ پہلی صدا ماں ہی کو دیتی ہے اور لپک کر ماں کے گود میں آتی ہیں۔ باپ کا سایہ اسکے لئے محفوظ قلعے کے مانند ہے۔ بچے جب گھر کے آنگن میں کھلکھلا کر ہنسیں تو گویا پھول کھلتے ہوں۔ وہی جب روئیں تو گویا آسمان سرپہ اٹھاتے ہیں۔ والدین اپنے ہم و غم بھول کر بچوں کی دلجوئی میں لگتے رہتے ہیں، مگر میرا سلام ان معصوم بچوں پر جو نہ فقط خوبصورت عمارتوں سے ملبوں کے ڈھیر پہ پہنچے ہیں۔ محفوظ گھروں سے خیموں میں پہنچے ہیں۔پررونق گھر اجڑ کر عالم تنہائی میں پہنچے ہیں۔ جنہیں کمبل کا وزن برداشت نہیں ہوتا تھا وہ اب مختلف بلڈنگوں کے ملبوں میں دبے ہیں۔ بہت وحشتناک منظر ہیں۔
کئی وڈیوز تو مجھ سے دیکھا نہیں گیا۔ ایک بچی ملبے میں دبی تھی لیکن سانس لے رہی تھی اس نے ماں باپ کو آواز دینا چاہی ہوگی مگر کیسے دیتی؟ ملبے میں اس کی سانسیں رک رہی ہونگیں مجھ سے پھر آگے دیکھا نہ گیا۔
میں نے ایک زخمی بچے کو ملبے کے ڈھیر پر اوندھے منہ روتے ہوئے دیکھا اسے زندہ نکالا تھا مگر اب وہ اکیلے تھے۔ نہ ماں تھی اور نہ باپ زندہ بچےتھے۔ وہ اپنا زخم دکھاتے کس کو اخر؟ وہ ملبے ہی پہ یوں لیٹا کہ جیسے ماں کی گودی یہی ہو۔ وہ خون آلود چہرہ کون دھوتا؟ گرد آلود بال کون صاف کرتا؟ پھٹے کپڑے بھی اب تو کون بدلے؟ وہ اپنی ماں کو اب کھوچکا تھا اب اس ملبے کو کھونا چاہا رہا تھا مگر میں نے نہ دیکھا اس سے اگے۔
میں نے ایک اور بچہ ایسا دیکھا،فقط زخمی نہیں پیاسا بھی تھا، وہ چہرہ کہہ رہا تھا بھوکا بھی تھا، بہت چور اور نڈھال ہوکر وہ پانی والے برتن کے قریب پہنچا،مگر پانی تو ایک گھونٹ بھی نہیں تھا، تھکاوٹ سے نڈھال اس کے بدن کو، کوئی کاندھا میسر بھی نہیں تھا، غنودگی سی غنودگی چھاگئی تو، وہ ملبےکا سہارا لےکے سویا،کہاں کمخواب ؟کہاں کمبل و تکیہ، کوئ چھت بھی تو اب سرپر نہیں تھا، بہت دور تک فقط ملبہ پڑھا تھا۔
میں نے ایک ایسا منظر یوں بھی دیکھا،ایک ماں زخموں سے اپنی چور چور تھی، قریب میں اس کا بچہ چور چور تھا،وہ بچہ درد سے جب رو رہا تھا، وہ ماں ممتا بھری اس زخمی ہاتھ کو بہت ہمت و شفقت سے اٹھاکر،بہت لا چار اور بےبس ہوکر، بیٹے کے زخمی اس ماتھے پہ رکھ کر، بہت کچھ کہدیا آنسو بہاکر۔ بہت سی ویڈیو تھی اور غزہ کے، مگر دیکھنے کو جرات تھی تو کس میں؟
بچوں کے حقوق پہ بولنے والے کئی بین الاقوامی ادارے ہیں۔ بہت سارے ملازم ہیں، مگر یہ سب ملازم ہیں، یہ حضرات بس وہ دیکھتے ہیں، جو کچھ آقا دکھاتا ہے۔ انہیں ایک شامی بچہ اعلان کردی دکھائی دیں، انہیں کے جلائے آگ میں جل کر وہ بھاگے تھے، وہ اپنی ماں باپ کی گودی میں سمندر میں وہ اترے تھے، اسے بےرحم موجوں نے کنارے پہ لٹایا تھا،سبھی نے شور مچایا تھا۔ مگر اب تو غزہ کے، سسکتے اور بلکتے، بھوکے پیاسے ننھے بچے کیوں دکھائی دے؟
سوات کی گھن گرج میں ایک ملالہ تنہا رہتی تھی، وہ روز ڈائری بھی لکھتی تھی، انہوں نے ڈائری پائی، ایف ایم سے خوشخبری پائی، اٹھایا اس کو اپنوں سے، دیار غیر میں پہنچی، بنی پھرتی ہے شہزادی، وہ چونکہ ایک چہیتی تھی۔
غزہ کی ان اپارٹمنٹ میں کوئی بچی نہیں رہتی؟ ہزاروں ان سکولوں میں ملالہ ایک بھی نہیں تھی، ان منہدم سکولوں سے کوئی بستہ؟ کوئی کاپی؟ کوئی ڈائری نہیں ملتی؟
مہسا ایک لڑکی تھی، وہ طبعی موت سوئی تھی، کسی نے بم نہیں مارا، کسی کا وار نہیں سہا، کسی نے بھی نہیں مارا، اٹھاکر اس کی تصویر کو، تم یواین او میں آئے ہو۔
کتنی مہسا امینی کو ،غزہ کے ان عمارات میں،خاک و خوں میں نہائے ہو،ڈھیروں ملبوں میں دبائے ہو۔۔۔۔ارے کاش شہر غزہ میں،کوئی ایلام کردی ہو، ملالہ یوسف زئی بھی ہو، کوئی مہسا امینی ہو۔۔۔۔تاکہ سبھی دیکھیں، سبھی روئیں، سبھی چیخیں، میڈیا کہ نگاہیں ہو، بہت سی کانفرنسیں ہوں، بہت سی قراردادیں ہوں، بعنوان انسانیت، مدد کرنے قطاریں ہوں۔۔۔وگرنہ ان معصوم بچوں کی آہوں ، سسکیوں اور رستے زخموں پر، ملبے میں دبتے جسموں پر، میرے جیسا غریب بےبس، بہت مجبور اور بےکس، اپنے ہی گھر کے کونے میں، انہیں دیکھ کر چپکے سے روئیں اور اپنے آپ سے یوں کہدیں۔
تری مشکل کا کوئی حل تو نہیں ہے مرے پاس
تری مشکل پہ کہیں بیٹھ کے رو لیتا ہوں